چاند اور تارے
صبح کے وقت ڈرتے ڈرتے تاروں نے چاند سے کہا۔
“ہم ایک مدت سے چمکتے آرہے ہیں۔ ہم چمک چمک کر تھک بھی گئے۔ لیکن آسمان کی وہی کیفیت رہی جو پہلے تھی۔ ہمارا کام صرف چلنا ہی چلنا ہے۔ صبح چلنا، شام چلنا۔ چلنا، چلنا اور ہمیشہ چلنا۔ یوں لگتا ہے جیسے اس کائنات کی ہر چیز بے قرار ہے اور یہاں سکون نام کی کوئی چیز نہیں ۔ تارے ہوں یا انسان درخت ہوں یا پتھر، جان دار ہوں یا بے جان ، سب سفر کی سختیاں جھیلتے نظر آتے ہیں ۔ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارا یہ سفر کبھی ختم بھی ہوگا اور کیا ہمیں کبھی منرل بھی نظر آئے گی یا نہیں ؟ کیا کسی منزل پر پہنچ کر آرام کرنا ہمار مقدر ہے یانہیں؟”
تاروں کی بات سُن کر چاند نے جواب دیا۔
اے میرے ساتھیو! اے آسمان پر چمکنےت والے اور رات کی محفل کی رونق بڑھانے والے دوستو! اس جہان کی تو زندگی ہی حرکت کے دم سے ہے۔ حرکت تو اس جہان کا پرانا دستور ہے، کوئی نئی بات نہیں۔ زمانے کا گھوڑا طلب اور جستجو کے کوڑے کھا کھا کر دوڑتا ہے۔ تلاش اور جستجو ہر شے کو ہر وقت حجرکت میں رکھتی ہے۔ یہ وہ راستہ جس میں کہیں رُکنے ٹھہرنے یا قیام کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لیے کہ یہاں رُکنا یا ٹھہرنا موت کو دعوت دینا ہے۔ جو ٹھہرا یا رُکا ، وہ ختم ہو گیا۔ چلنے والے چلتے چلتے دُور آگے نگل گئے ہیں مگر جو ذرا بھی کہیں ٹھہر گئے ہیں ، زمانہ اور وقت اُنھیں روند ڈالتاہے اور انھیں روندتے ہوئے آگے بڑھ جاتاہے۔ اس لیے تم اسی طرح چلتے رہو اور چلنے سے گھبراؤ نہیں۔ اس چلنے کا انجام حُسن ہے اور اس کا آغاز عشق سے ہوتا ہے۔ یہ عشق تلاش و جستجو اور جدو جہد کے سچے ذوق ، کھرے جذبے اور پکی لگن کا نام ہے۔ اس میں درجہ کمال حاصل کر لینے کا نام حُسن ہے۔”
علامہ اقبالؒ نے اس نظم میں ہمیں حرکت اورجدوجہد کی تعلیم دی ہے۔ اُنھوں نےستارون کےسوال کے جواب میں چاند کی زبان سے اس حقیقت کو عیاں کیا ہے کہ زندگی سراپا عمل اور جہدوجہد کا نام ہے۔ عمل پہیم اور سعیِ مسلسل زندگی اور ترقی کےلیے لازمی ہیں۔ عمل زندگی ہے اور سکون موت ۔ جو قومیں مصروفِ عمل ہیں وہ ترقی کرتی ہیں اور جو قومیں بے عمل ہوجائیں وہ فنا کے گھاٹ اُتر جاتی ہیں۔ اس لحاظ سے حرکت یاعمل ہی زندگی ہے اور زندگی ہی کا دوسرا نام عمل یا حرکت ہے۔
(حکایاتِ اقبالؒ)