سیرِ فلک
ایک دن میں نے عالمِ خیال میں آسمان کی طرف پرواز شروع کی۔ میرا خیال میرا ہم سفر تھا اور چلتے چلتے میں آسمان پر پہنچ گیا۔ میں اُڑتا جارہا تھا اور آسمان پر میرا واقف یا جاننے والا کوئی نہ تھا۔ تارے بھی حیرانی سے مجھے دیکھ رہے تھے کہ یہ شخص کون ہے اور کہاں جارہا ہے؟ لیکن میرا سفر ایک ایسا راز تھا جو سب کی نگاہوں سے چھپا ہواتھا ۔ چلتے چلتے میں دنیا کے پرانے نظام سے باہر نکل گیا اور صبح و شام کے حلقے سے آزاد ہو گیا۔
پہلے میں جنت میں گیا۔ میں کیا بتاؤں کہ بہشت کیاہے؟ بس یہ سمجھ لو کہ آنکھ اور کان جن جن چیزوں کی آرزو کر سکتے ہیں ، وہ سب وہاں موجود تھیں۔ طوبیٰ کی شاخ پر پرندے نغمے گارہے تھے حوریں بے پردہ جلوے دکھاتے ہوئے آزادی کے ساتھ باغوں کی سیر کر رہی تھیں۔ خوب صورت ساقیوں کے ہاتھوں میں شراب طہور کے پیالے تھے اور اہل جنت میں شراب طہور پینے پلانے کا شور بپا تھا۔
بہشت کی یہ رونقیں دیکھتے ہوئے میں نے بہشت سے بہت دور ایک سیا اندھیرا مکان دیکھا جو تاریک ہونے کے علاوہ سنسان اور انتہائی ٹھنڈا تھا۔ اس کی تاریکی مجنوں کی قسمت اور لیلیٰ کی زلفوں سے بھی زیادہ سیاہ تھی اور سردی اس قدر شدید تھی کہ اس کے سامنے کرہ زہرہ کی بھی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ گویا کہ وہ مکان اس انتہائی سرد کرے سے بھی زیادہ سرد تھا جو کرہ ہوا کے وسط میں واقع ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے اس مکان کی سردی کو دیکھ کر کرہ زہرہ نے بھی شرما کر اپنا منہ چھپا لیاہے۔
میں نے جب اس مکان کے بارے میں دریافت کیا کہ یہ جگہ اور اس کی کیفیت کیا ہے تو غیب کے فرشتے نے مجھے جو جواب دیا، اُس نے مجھے انتہائی حیرت میں ڈال دیا۔ فرشتے نےکہا۔
“یہ ٹھنڈا مقام جہنم ہے ۔ یہ آگ اور روشنی دونوں سے محروم ہے۔ اس کے شعلے اس کے اپنے نہیں، مستعار ہوتے ہیں۔ یہ شعلے ذاتی نہ ہونے کے باوجود ایسے شدید ہوتے ہیں کہ عبرت حاصل کرنے والے لوگ ان کے تصور ہی سے کانپ کانپ اٹھتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ دُنیا کے جو لوگ یہاں آتے ہیں، وہ اپنی آگ اور اپنے انگارے اپنے ساتھ لےکرآتے ہیں۔
علامہ اقبال ؒ نے اس نظم میں ہمیں یہ بتایا ہے کہ دوزخ کا عذاب اصل میں انسان کے اپنے برے اعمال سے پیدا ہوتاہے۔ جو شخص جیسے اور جتنے برے عمل کرتا ہے۔ اُسے ویسا اور اتنا ہی عذاب ملتا ہے ۔ دوزخ کے شعلے ذاتی نہیں ہوتے بلکہ جو لوگ اپنے برے اعمال کی بنا پر دوزخ میں جاتے ہیں، اُن کےوہی برے اعمال اُن کے لیے دوزخ کے شعلوں اور انگاروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ یعنی دوزخ میں جو بھی آتا ہے۔ وہ آگ دنیا سے اپنےساتھ لے کر آتا ہے۔ اسی حقیقت کو علامہ اقبال ؒ نے ایک نے ایک دوسری نظم کے اس شعر میں بیان کیاہے۔
عمل سے زندگی بنتی ہے ، جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری
(حکایاتِ اقبالؒ)