ایک مکالمہ
ایک گھریلو پرندے کی ملاقات کہیں فضاؤں کی وسعتوں میں پرواز کرنے والے پرندے سے ہوئی تو اُس نے شکایت کے طرز پر کہا۔
“اگر تو پردار ہے تو کیامیں پردار نہیں ہوں؟ قدرت نے جس طرح تجھے پر دیے ہیں، اُس طرح مجھے بھی پروں والا بنایاہے۔ اگر تو ہوا میں اڑسکتا ہے تو میں بھی اس خوبی سے محروم نہیں ہوں ۔ تیری طرح میں بھی ہوا میں اڑسکتا ہوں۔ اگر تو آزادی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ آ جاسکتا ہے تو یہ خوبی مجھ میں بھی موجود ہے۔ میں بھی تیری ہی طرح آزاد ہوں ، پابند نہیں۔ قدرت نے جسے بھی پر بخشے ہیں اُسے اِ ن پروں سے اڑنے اور پرواز کرنے کی صلاحیت بھی بخشی ہے۔ جو بھی پروں والا ہے، وہ لازماً اُڑے گا۔ پھر سمجھ میں نہیں آتاکہ تو اور تیری طرح فضا میں اُڑنے والے دوسرے پرندے اتنے مغرور کیوں ہیں؟”
یہ دل دُکھانے والی باتیں سُن کر فضا میں اُڑنے والے پرندے کی غیرت کو ٹھیس لگی اور اُس نے کہا۔
“اس میں کوئی شک نہیں کہ جس طرح میں پردار ہوں، اُسی طرح تو بھی پر دار ہے اور جس طرح میں اُڑنے میں آزاد ہوں ۔ اس طرح تجھے بھی اُڑنے میں پوری آزادی حاصل ہے۔ لیکن یہ بھی تو دیکھ کہ تیری اُڑان ہے کہاں تک؟ تیری پرواز کی حد کسی دیوار کی منڈیر تک یازیادہ سے زیادہ کسی درخت تک ہے ۔ جب تیری پرواز کی حد یہ ہے تو پھر تُو فضا میں اُڑنے والے پرندوں کی ہمت اور حوصلے کا اندازہ کس طرح کر سکتاہے؟ تیرا رہنا سہنا تو زمین پر ہے جب کہ اُن کا تعلق آسمان سے ہے۔ تو ایک گھریلوپرندہ ہے اور اپنا رزق زمین پر تلاش کرتاہے جب کہ ہم رزق کی تلاش میں فضاؤں کی وسعتوں کو چیرتے ہوئے ستاروں تک پہنچ جاتے ہیں اور اُنھیں کودانہ سمجھ کر چونچ مارنے لگتے ہیں۔”
علامہ اقبالؒ نے گھریلو پرندے اور فضا میں پرواز کرنے والے پرندے کے اس مکالمے کے ذریعے ہمیں یہ بات سمجھائی ہے کہ اگر مختلف لوگوں کےپاس ظاہری اسباب ایک ہی قسم کے ہوں تو ضروری نہیں کہ ان سب کا مقام و مرتبہ بھی ایک ہو۔ وسائل چاہے یکساں ہی ہوں، لیکن و سائل کی یکسانی کے باوجود کچھ لوگ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں اورکچھ دوسروں سے آگے نکل جاتے ہیں کیوں کہ مقام اورمرتبہ ہر شخص کے وسائل پر نہیں بلکہ اُس کےذاتی اوصاف ، ہمت و حوصلہ اور عزائم و مقاصد کی بلندی پر موقوف ہے۔
(حکایاتِ اقبالؒ)